مزدوروں کا دن اور تلخ زمینی حقائق
(تحریر:عبدالباسط علوی)
ہر سال يکم مئ کو يوم مزدور بڑے جوش و خروش سے منايا جاتا ہے -فائيو اسٹار ہوٹلز کے اے سی والے ہالز ميں بيٹھے مقرروں کی لمبی لمبی تقارير سن کر اور سامعين کا انہماک ديکھ کر گمان ہونے لگتا ہے کہ سارے مزدوروں کا درد ان ميں امڈ آيا ہے- خيران سب کے گھروں ميں کام کرنے والے ملازميں تو ان کے حساب سے مزدوروں کے زمرے ميں نہیں آتے
قارئين، سچ تو يہ ہے کہ فقط مزدوروں کے نام پر کئ محکمے، ادارے ،ان جی اوز وغيرہ چلتے ہيں-بڑی بڑی تنخواہوں اور لمبی لمبی گاڑيوں والے افسران عياشی کرتے ہيں- صرف يوم مزدور کے نام پر کانفرنسوں اور تشاہير پر لاکھوں روپے خرچ کر ديے جاتے ہيںمگر کتنے افسوس کا مقام ہے کہ حقيقت بلکل برعکس ہے- سرمايا داروں،جاگيرداروں،امراء اور اسٹيٹس کو کے معاشرے ميں مزدور کا استحسال عروج پر ہے- گھروں کی طرف آئيں تو ہم ديکھتے ہيں کہ ملازم کو مالک کے ساتھ بيٹھ کر کھانے کی اجازت نہيں ہوتی- اوراسے مالک والا کھانا اور بھی ںہيں ديا جاتا-مالک منرل يا فلٹر والا پانی پيے مگر ملازم کے لئے عام نلکے والا پانی- ملازم کے تو برتن بھی الگ ہوتے ہيں جو مالک کے برتنوں کو چھو بھی نہيں سکتے- ان کے رہنے کے لئے ڈربے نما سرونٹ کواٹر بھی گھر سے دور بنايا جاتا ہے-ملازمين کے ساتھ گالم گلوچ اورمارپيٹ بھی عام ہے- ہراسمنٹ اور چائلڈ ليبر پر تو الگ مضامين اور کالم لکھے جا سکتے ہيں
يہ تو تھی گھريلو ملازمين کی حالت زار- دوسری طرف آئيں تو عام مزدوروں کا تو اللہ ہی حافظ ہے- کئ کئ دن سڑکوں کے کنارے کام کی تلاش ميں بيٹھے رہتے ہيں-کام کا موقع ملے بھی تو نحيف،بوڑھے اور کمزور وہيں بيٹھے رہ جاتے ہيں اور چھانٹی کر کے جوان اور تندرستوں کو لے ليا جاتا ہے-صنعتی مزدوروں کی بھی ايک الگ کہانی ہے- حقيقی معنوں ميں مزدوروں کے لۓ انشورنس،پينشن،تعليم اور علاج معالجے کی سہوليات نہ ہونے کے برابرہيں
ہوشربا مہںگائ نے ہمارے مزدور کا جینا دوبھر کر رکھا ہے- ہمارے ہاں کم سے کم اور حالات و مہنگائ سے مطابقت رکھنے والی اجرت کا کوئ تصور نہیں- مزدورون کا استحصال عروج پر ہے- اول تو کام ملتا ہی نہيں اور اگر مل بھی جاۓ تو اجرت بہت کم ہوتی ہے-وقت پر اور سرے سے اجرت نہ ملنے کی شکایات بھی عام ہیں- فوری اور یکساں انصاف بھی میسر نہیں- صحت ،تعلیم،سیفٹی اور انشورنس کی سہولیات کا فقدان ہے- مزدوروں کی پینشن کا کوئ فعال اور موزوں نظام نہیں ہے- مزدور کی محنت و مشقت کا سفر بچپن سے شروع ہو کر قبر تک ختم ہوتا ہے-ہمارا نظام ایک دس سالہ اور ایک اسی سالہ مزدور سے بھی ایک جوان کی سی محنت و مشقت کا تقاضا کرتا ہے اور ايسے تکلیف دہ مناظر جگہ جگہ دکھائ دیتے ہیں
قارئين؛ مزدوروں کی حالت زار ديکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے- ان کے حالات کی بہتری کے لیے ذيل ميں چند تجاويز ارباب اختيار کے گوش گزار ہيں
تمام مزدوروں کی رجسٹريشن کی جاۓ-مزدوروں کے لئے پينشن اور انشورنس کا جامع اور فعال نظام شروع کيا جاۓ- بے روزگار مزدوروں کے لۓ جاب سنٹرز بناۓ جائيں اور روزگار ملنے تک بے روزگاری الاؤنس ديا جائے- علاج معالجے کی بہترين سہوليات فراہم کی جائيں- پورے ملک ميں مزدور ہسپتال بناۓ جائيں- تعليمی اداروں ميں مزدوروں کے بچوں کا کوٹہ مختص کيا جائے- کارآمد اور مفيد ہنر سکھاۓ جائيں
نجی طبقے اور سرمايہ داروں کو بھی آگے لایا جائے- تحصيل کی سطح پر اندسٹريئل زونز بنا کر مقامی لوگوں کو روزگار دينے کی شرط عائد کی جائے
مزدوروں اور گھریلو ملازمين کے حقوق کی ديکھ بھال اور مانيٹرنگ کے لۓ ٹاسک فورس بنائ جاۓ -اس مقصد کے لۓ مقامی زعما اور شرفاء کی کمیٹیياں بھی بنائ جا سکتی ہيں- شکايت بکس کو فروغ ديا جاۓ
قارئین، معاشرے کے اس مجبور اور مفلوک الحال طبقے کے لئے سنجيدہ اور مخلصانہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے
اللہ نگہبان

Comments
Post a Comment