!مہنگائ-گھبرانا نہيں
تحریر: عبدالباسط علوی
مہنگائ کے طوفان نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے- آسمان کو چھوتی قیمتوں نے غریب کے لۓ دو وقت کی روٹی حاصل کرنا مشکل کر دیا ہے- اشرافیہ اور حکمران طبقہ غریب کی مشکلات سے کنی کترا کر اپنی دنیا میں مست ہے- عوام کے ٹیکس سے عیاشی کرنے والے حکمران اور افسران کو غریب کا ذرہ بھر بھی احساس نہیں- مستقبل کی کوئ طویل البنیاد پلاننگ نہیں- ہر آنے والا پچھلوں کی غلطیوں اور خزانہ خالی کرنے کا رونا رو رو کر اپنی مدت پوری کرتا ہے
تیل کی لگاتار بڑھتی قیمت باعث تشویش ہے-ڈالر بے لگام ہوا پڑا ہے- اشیاء خورد ونوش اور روز مرہ کی تمام اشیاء غریب کی استطاعت سے باہر ہو چکی ہیں- ٹیکسوں اور بیرونی قرضوں کا انبار ہے مگر سارا پیسہ جا کہاں رہا ہے کوئ پتہ نہیں- غریب کا جینا دوبھر ہو چکا ہے-بے روز گاری عروج پر ہے اور اوپر سے گھبرانا نہیں کا لالی پاپ غریب کے ذخموں پر نمک چھڑک رہا ہے
عوام کو الفاظ اور اعداد کے ہیر پھیر سے کچھ لینا دینا نہيں بلکہ اسے تو زمینی حقائق اور عملی اقدامات سے سروکار ہے- احتساب اور گرفتاریوں کا عمل حقیقی معنوں میں عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ عوامی مسائل میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے
سوشل میڈیا میں ایک پوسٹ دیکھی جس میں لکھا تھا کہ اگر پچھلی حکومتوں نے کرپشن کر کے بھی قیمتوں کو قابو میں رکھا ہوا تھا تو وہ آج کی ایمانداری کی دعویدار حکومت سے بہتر تھيں کہ جس کے دور میں غریب کے گھر کا چولہا جلنا محال ہو چکا ہے
راقم کی تحقیق کے مطابق مہنگائ کی ایک اہم وجہ تیل کی قیمتوں میں اتارچڑھاؤ ہے-گاڑی کے پہیے سے لیکرفیکٹری کی مشینوں کا حرکت میں رہنا تیل اورایندھن کا ہی مرہون منت ہے- ہماری ستم ظریفی ہے کہ عوام کو تیل کی عالمی منڈی کے نظام سے بچانے کے لۓ کسی کے پاس کوئ پالیسی نہیں ہے یا پھر جان بوجھ کر اس معاملے پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے-چاہیے تو یہ تھا کہ توانائ کے متبادل ذرائع پر سنجیدگی سے کام کیا جاتا-اس ضمن میں سورج کی حرارت اور کچرے کو بطور ایندھن استعمال کر کے توانائ حاصل کرنے کے منصوبے بناۓ جا سکتے تھے- ونڈمل کے بارے میں بھی سوچا جاسکتا تھا-بہرکیف اگر ماضی میں کسی بھی وجہ سے ایسا نہيں کیا جاسکا تو اب دانش مندی کا تقاضہ یہی ہے کہ اس بارے میں سنجیدگی سے اقدامات اٹھاۓ جائیں
عوام سے سیلز ٹیکس کے نام پر اربوں روپے اکٹھے کۓ جاتے ہیں- یاد رہے کھانے پینے اور استعمال کی ہر چیز پر سیلز ٹیکس ہوتا ہے اورحکومت کو اس مد میں کثیر رقم حاصل ہوتی ہے-ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں ٹیکس سے حاصل کی گئ رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتی ہے جبکہ ہماری طرف الٹی گنگا بہتی ہے-ترقی یافتہ ممالک ميں امیر ذیادہ ٹیکس دیتے ہيں جبکہ ہمارے ہاں ذیادہ ٹیکس غریب سے حاصل کیا جاتا ہے اورپھر بھی غریب ہی پستا ہے- ٹیکسوں سے حاصل کی گئ رقم کو قیمتوں میں اضافے کی صورت میں عوام کو سبسڈی دینے پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے-تیل کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ٹیکسوں کی آمدنی سے ادا کر کے بھی غریب عوام کی مدد کی جا سکتی ہے
ایک اھم مسئلہ قیمتوں کے اتار چڑہاؤ پر کنٹرول کا بھی ہے- کسی فرد کو اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھانے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے-مثال کے طور پر تیل کی قیمتوں میں اضافے پر ٹرانسپورٹرز اپنی مرضی سے کراۓ بڑھا دیتے ہيں مگرتیل کی قيمتیں کم ہونے پر کراۓ کم نہیں کرتے-يہی حال کھانے پینے اور استعمال کی اشیاء کا بھی ہے- پرائس کنٹرول کا فعال،شفاف اور عوام دوست ںظام ہونا چاہيے
کئ ترقی یافتہ ممالک ميں سال میں ایک بار قیمتوں ميں اضافے کے ساتھ کم سے کم اجرت ميں اضافے کا اصول رائج ہے- ہمارا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں کی برائ کو تو فورآّ اپنا لیتے ہیں مگر انکی اچھايئوں کو نظر انداز کر ديتے ہيں- مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کے نظام پر تحقیق کرکے قابل عمل اور عوام دوست اقدامات اٹھانے چاہئیں
غریب عوام کے لۓ مخلصانہ اور انقلابی اقدامات اٹھانا وقت کی اہم ضرورت ہے اور قوم ایک سچے و مخلص مسیحا کے انتظار میں ہے
اللہ نگہبان


ایک مسیحا تو جلانے کی بجاۓ بجھانے والا نکلا ہے۔
ReplyDeleteاب اور کسی مسیحی کا آنا ہی باقی ہے۔