Skip to main content

ہمارا ناقص نظام صحت


ہمارا ناقص نظام صحت
(تحریر:عبدالباسط علوی)

علاج معالجے کی سہولیات حاصل کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے- ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں ہر شہری کو علاج معالجے کی یکساں سہولیات میسر ہیں- اس کے برعکس وطن عزیز کے شہريوں کی اکثريت اس حق سے محروم ہے- ہمارے ملک میں بنیادی اور عام بیماریوں سے بھی بے شمار اموات واقع ہو جاتی ہیں- آبادی کے لحاظ سے ڈاکٹروں کی تعداد بھی بہت کم ہیں اور جو ڈاکٹر موجود ہیں انکی اکثریت گاؤں میں جانے کو تیار نہیں ہوتی-گاؤں اور دیہاتوں ميں عطائیت،غیرتربیت یافتہ دائیوں ، نیم حکیموں اور جعلی ڈاکٹروں کی بـھرمارہے- ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کی تعداد بھی بہت کم ہے اور جو ہیں ان میں سہولیات،سازوسامان اور ادویات کا فقدان ہے- زچگی کے دوران اموات کی شرح بھی بہت ذیادہ ہے
ہسپتالوں میں تعینات ڈاکٹروں کی ذیادہ توجہ اور دلچسپی اپنے پرائیويٹ کلینکس پر ہے- ہسپتالوں میں غریب اور نادار مریضوں کےے ساتھ ڈاکٹروں اور سٹاف کا رویہ بھی بے حد ہتک آمیز ہوتا ہے- جعلی اور کم معیار والی ادویات کی بھرمار ہے اور مقام افسوس ہے کہ سب کچھ ملی بگھت سے ہوتا ہے-ان تمام معاملات کی چیکنگ اور مانیٹرنگ کا فعال،آذادانہ اور شفاف نظام موجود نہیں اور اگر بھول چوک کر کوئ کاروائ کی بھی جاۓ تو احتجاج اور ہڑتالوں کی صورت میں بلیک میلنگ شروع کر دی جاتی ہے
ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں بڑھتی ہوی بیماریوں کی بڑی وجوہات ميں تعلیم و آگاہی کی کمی، ملاوٹ،آلودگی،گندگی، صاف پانی کا نہ ہونا،ڈاکٹروں ،ادویات اور سہولیات کی کمی ہے
سب سے بنیادی ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ عوام پر لگایا جاۓ-نیشنل ہيلتھ سسٹم کی طرز پر ہر شہری کو صحت کی یکساں اور مفت سہولیات فراہم کرنی چاہيئں- تمام شہریوں ک پورے ملک میں ہسپتالوں کا جال پھیلایا جاۓ- گاؤں میں بھی شہروں جيسی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے- میڈیکل کلجوں میں جس کوٹے پر طلبا‏ء کا داخلہ ہو اسی علاقے میں کام کرنے کی شرط بھی رکھی جا سکتی ہے-پرائيویٹ پریکٹس پر پابندی ہونی چاہیے یا اگر یہ ممکن نہ ہو تو سرکاری ہسپتالوں می ہی شام کے اوقات میں مناسب فیس میں پریکٹس کی اجازت ہونی چاہیے-ڈاکٹروں اور عملے کو عالمی معیار کی تنخواہیں اور سہولیات دے کر موثرقانون سازی کے ذریعے ہڑتالوں اور بلیک میلنگ کا خاتمہ کرنا چاہيۓ- دواؤں کا عمدہ معیار یقینی بنانے کے لۓ ملٹی نیشنل اور اچھی شہرت کی حامل چند کمپنیوں کو ہی ادویہ سازی کی اجازت ہونی چاہیے
ادویات کی قیمتوں میں من مانے،بلاجواز اور ہوشربا اضافے نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے- اس طرف بھی فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے
یورپ میں ڈیلیوری کے وقت خاوند عورت کے پاس ہوتا ہے اور کمرے میں ایک یا دو نرسیں ہوتی ہیں۔ کسی قسم کی دوائی نہیں دی جاتی، عورت درد سے چیختی ہے مگر نرس اسے صبر کرنے کا کہتی ہے اور %99 ڈیلیوری نارمل کی جاتی ہے۔ نہ ڈیلیوری سے پہلے دوا دی جاتی ہے نہ بعد میں۔ کسی قسم کا ٹیکہ نہیں لگایا جاتا۔ 
عورت کو حوصلہ ہوتا ہے کہ اس کا خاوند پاس کھڑا اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہے۔ ڈیلیوری کے بعد بچے کی ناف قینچی سے خاوند سے کٹوائی جاتی ہے اور بچے کو عورت کے جسم سے ڈائریکٹ بغیر کپڑے کے لگایا جاتا ہے تاکہ بچہ ٹمپریچر مینٹین کر لے۔ بچے کو صرف ماں کا دودھ پلانے کو کہا جاتا ہے اور زچہ یا بچہ دونوں کو کسی قسم کی دوائی نہیں دی جاتی سوائے ایک حفاظتی ٹیکے کے جو پیدائش کے فوراً بعد بچے کو لگتا ہے۔ پہلے دن سے ڈیلیوری تک سب مفت ہوتا ہے اور ڈیلیوری کے فوراً بعد بچے کی پرورش کے پیسے ملنے شروع ہو جاتے ہیں۔ 
پاکستان میں لیڈی ڈاکٹر ڈیلیوری کے لئے آتی ہے اور خاتون کے گھر والوں سے پہلے ہی کہہ دیتی ہے کہ آپ کی بیٹی کی پہلی پریگنینسی ہے، اس کا کیس کافی خراب رہا ہے جان جانے کا خطرہ ہے، آپریشن سے ڈیلیوری کرنا پڑے گی۔ %99 ڈاکٹر کوشش کرتی ہے کہ نارمل ڈیلیوری کو آپریشن والی ڈیلیوری میں تبدیل کر دیا جائے۔ 
ڈیلیوری سے پہلے اور بعد میں کلوگرام کے حساب سے دوائیاں دی جاتی ہیں ڈیلیوری کے وقت خاوند تو دور کی بات خاتون کی ماں یا بہن کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور اندر ڈاکٹر اور نرس کیا کرتی ہیں یہ خدا جانتا ہے یا وہ خاتون۔ 
نارمل ڈیلیوری بیس تیس ہزار میں اور آپریشن والی ڈیلیوری اسی نوے ہزار میں ہو تو ڈاکٹر کا دماغ خراب ہے نارمل کی طرف آئے آخر کو اس کے بھی تو خرچے ہیں بچوں نے اچھے سکول میں جانا ہے نئی گاڑی لینی ہے بڑا گھر بنانا ہے۔ اسلام کیا کہتا ہے انسانیت کیا ہوتی ہے سچ کیا ہوتا ہے بھاڑ میں جائے، صرف پیسہ چاہئیے۔۔
انسانیت جب مر جائے تو انسانوں کی جانوں سے کھیلا جاتا ہے ۔۔۔ 
تلخ مگر حقیقت ۔۔۔۔  حکومت وقت کو چاہیۓ کہ عوام کے ان عمومی اور بنیادی مسائل کی طرف توجہ دے ۔۔۔ خدارا ہماری ماؤں اور بہنوں اور بیٹیوں کو اس ظالم نظام   سے  بچایا جاۓ ۔۔۔۔ 
علاوہ ازیں عطائيت او نیم حکیمی کا خاتمہ ہونا چاہیۓ- نگرانی اورمانیٹرنگ کا آزادانہ اور شفاف نظام ہونا چاہيے-مقامی کمیٹیاں بھی موثر ثابت ہو سکتی ہيں-شکایات درج کروانے کے آسان اور سادہ طریقے متعارف کرانا بے حد ضروری ہے-اس ضمن میں کمپلینٹ باکس اور آن لائن جیسی سہولتیں فراہم کی جا سکتی ہيں



قارئين، صحت جیسے اہم شعبے میں بہتری لانے کے لۓ انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے



Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

مہنگائ-گھبرانا نہيں

!مہنگائ-گھبرانا نہيں تحریر: عبدالباسط علوی مہنگائ کے طوفان نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے- آسمان کو چھوتی قیمتوں نے غریب کے لۓ دو وقت کی روٹی حاصل کرنا مشکل کر دیا ہے- اشرافیہ اور حکمران طبقہ غریب کی مشکلات سے کنی کترا کر اپنی دنیا میں مست ہے- عوام کے ٹیکس سے عیاشی کرنے والے حکمران اور افسران کو غریب کا ذرہ بھر بھی احساس نہیں- مستقبل کی کوئ طویل البنیاد پلاننگ نہیں- ہر آنے والا پچھلوں کی غلطیوں اور خزانہ خالی کرنے کا رونا رو رو کر اپنی مدت پوری کرتا ہے  تیل کی لگاتار بڑھتی قیمت باعث تشویش ہے-ڈالر بے لگام ہوا پڑا ہے- اشیاء خورد ونوش اور روز مرہ کی تمام اشیاء غریب کی استطاعت سے باہر ہو چکی ہیں- ٹیکسوں اور بیرونی قرضوں کا انبار ہے مگر سارا پیسہ جا کہاں رہا ہے کوئ پتہ نہیں- غریب کا جینا دوبھر ہو چکا ہے-بے روز گاری عروج پر ہے اور اوپر سے گھبرانا نہیں کا لالی پاپ غریب کے ذخموں پر نمک چھڑک رہا ہے عوام کو الفاظ اور اعداد کے ہیر پھیر سے کچھ لینا دینا نہيں بلکہ اسے تو زمینی حقائق اور عملی اقدامات سے سروکار ہے- احتساب اور گرفتاریوں کا عمل حقیقی معنوں میں عوام کے بن...

مزدوروں کا دن اور تلخ زمینی حقائق

مزدوروں کا دن اور تلخ زمینی حقائق (تحریر:عبدالباسط علوی) ہر سال يکم مئ کو يوم مزدور بڑے جوش و خروش سے منايا جاتا ہے -فائيو اسٹار ہوٹلز کے اے سی والے ہالز ميں بيٹھے مقرروں کی لمبی لمبی تقارير سن کر اور سامعين کا انہماک ديکھ کر گمان ہونے لگتا ہے کہ سارے مزدوروں کا درد ان ميں امڈ آيا ہے- خيران سب کے گھروں ميں کام کرنے والے ملازميں تو ان کے حساب سے مزدوروں کے زمرے ميں نہیں آتے قارئين، سچ تو يہ ہے کہ فقط مزدوروں کے نام پر کئ محکمے، ادارے ،ان جی اوز وغيرہ چلتے ہيں-بڑی بڑی تنخواہوں اور لمبی لمبی گاڑيوں والے افسران عياشی کرتے ہيں- صرف يوم مزدور کے نام پر کانفرنسوں اور تشاہير پر لاکھوں روپے خرچ کر ديے جاتے ہيں مگر کتنے افسوس کا مقام ہے کہ حقيقت بلکل برعکس ہے- سرمايا داروں،جاگيرداروں،امراء اور اسٹيٹس کو کے معاشرے ميں مزدور کا استحسال عروج پر ہے- گھروں کی طرف آئيں تو ہم ديکھتے ہيں کہ ملازم کو مالک کے ساتھ بيٹھ کر کھانے کی اجازت نہيں ہوتی- اوراسے مالک والا کھانا اور بھی ںہيں ديا جاتا-مالک منرل يا فلٹر والا پانی پيے مگر ملازم کے لئے عام نلکے والا پانی- ملازم کے تو برتن بھی الگ ہوتے ہ...

How to get Justice in a Culture of Injustice?

How to get Justice in a Culture of Injustice? (Written by : Abdul Basit Alvi) Unfortunately, even after seven decades of independence, we are still failed to provide an atmosphere of justice, equity and supremacy of merit to all. People with strong references easily get jobs while others remain unemployed. Strong Mafias exist in all organizations & departments and they bring their own people or people through strong references in case of any new hiring. Unemployment is a big issue and its pain is felt only by an unemployed person. Others will give you suggestions and advises but practically it’s very difficult to get a job in Pakistan through fair means.   It’s very difficult to feed your family and survive without a job. Everyone don’t have money , resources and skills to start his own business. Corruption, bad practices and favoritism exists in our recruitment process and it’s very rare to get a job on merit and unfortunately these things are not considered ...